Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

شادی پر لاکھوںلگے‘ قرضہ چڑھا‘ مگر شکر ہے ناک بچ گئی!

ماہنامہ عبقری - دسمبر 2018

کیا اس طرح ہمارے گھروں میں سکون آسکتا۔ میں اکثر عبقری میں شیخ الوظائف کی تحریر ’’حال دل‘‘ میں ایسی شادیوں کے انجام اور نسلوں کا بُرا حال پڑھتا ہوں اس کے علاوہ شیخ الوظائف درس میں بھی اکثر ایسی شادیوں کے انجام بتاتے ہیں۔

قارئین! مجھے ماہنامہ عبقری پڑھتے ہوئے پانچ سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے۔ میرے خیال میں یہ پاکستان کا واحد میگزین ہے جس میں آپ کو زندگی کے ہر شعبہ‘ ہر عمر اور ہروقت کے حساب سے رہنمائی ملتی ہے۔ میں محترم شیخ الوظائف کے درس بڑی توجہ سے سنتا ہوں ۔ شیخ الوظائف اکثر اپنے دروس میں شادی کو سادہ بنانے کی بات کرتے ہیں اور دور جدید کی فیشن زدہ شادیوں کے انجام اکثر رسالہ عبقری میں پڑھنے کو بھی ملتے ہیں اور شیخ الوظائف کے دروس میں سننے کو بھی ملتے ہیں۔میں نے خود بھی دیکھا ہے کہ نجانے کتنی نوجوان بچیاںصرف شادی کے اضافی اخراجات نہ برداشت کرنے کی وجہ سے کنواری بیٹھی ہیں اور جن کی ہوچکی ہے ان کے والدین آج بھی گردن تک قرض میں ڈوبے ہیں اور گھر بیماریوں‘ پریشانیوں اور تنگدستیوں کا ٹھکانہ بن چکا ہے۔ قارئین!آج کے دور کی شادی سنت نبویﷺ کی بجائے معاشرہ میں طبقاتی جزو عزت اور دولت کی فراوانی کا اظہار کررہی ہے اور یہ شادی معاشرے کے متوسط اور محنتی طبقہ کے لئے مالی مشکلات، ذہنی دبائو، سوچ و بچار اور نہ جانے کتنے خیالات اور پریشانیاں پیدا کررہی ہیں۔ مال و دولت والوں کی فکر تو اظہار دولت ہے۔ ان کی حکمت عملی تصرف دولت ہے تاکہ رشتہ دار، جاننے والے اور جہاں والے ان کی نمود و نمائش، دعوتوں، کارڈوں اور سیٹ اپ کو دیکھ کر ان کی آنکھیں کھلیں اور عش عش کریں۔ اگر دعوت میں خال خال، وی وی آئی پی آجائیں تو ان کی قوت روح میں اصلی طاقت آجاتی ہے کہ منفرد حضرات ان کو پہنچاتے ہیں۔ عقیدت رکھتے ہیں۔ سب اخراجات، بجلی کے قمقمے، قالین، صوفہ سیٹ، شامیانے، خانسامے، بیرے اور کئی ڈشوں والے کھانے کھلانے کا واحد مقصد عزت و اکرام، اپنی تسلی ہے۔ اس سے برادری میں سرداری کا فریب نظر آیا ہے۔ ایسی بھاری دعوت میں آخرت کی فکر یا معاشرہ کے دیگر لوگوں کا خیال، قانون کی پابندی،سب ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے۔
اگر حکومت وقت نے برات کا کھانا دینے یا صرف ایک ڈش دینے کا حکم صادر کیا ہے تو ہم ہمیشہ اس کے برخلاف چلیں گے اور ضد میں آکر کھانا ضرور دیں گےاور کہا جاتا ہے کہ شادی کے موقع پر لوگوں کو کچھ کھلایا جانا ضروری ہے اگر ہم نے صرف ’’ایک ڈش‘‘ سے برات کی تواضع کی تو لوگ کیا کہیں گے۔ حالانکہ میں نے شیخ الوظائف کے درس میں یہاں تک سنا ہے کہ شیخ الوظائف فرمارہے تھے کہ میں نے ایک عالم، مفتی صاحب سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ برات کا کھانا ’’مشکوک‘‘ ہے۔ کھانے سے پرہیز کریں۔
خیر گزشتہ ہفتہ میرے گھر کے ساتھ ملحقہ پارک میں کسی برات کیلئےشاندار شامیانے نصب کئے گئے خاص قسم کا سیٹ اپ دیکھنے میں آیا۔میں ہمسایہ تھا تو مجھے بھی دعوت نامہ ملا۔ خواتین کے لئے جدا کرسیاں، کرسیوں پر سفید رنگ کے غلاف اور سبز پٹی نہایت آرکسٹک ٹیسٹ والی لگائی۔ بجلی کے بلب اور بانسوں کو خاص سجایا گیا۔ مردوں کی کرسیاں سفید تھیں۔ مگر پٹی سرخ رنگ کی تھی۔ سٹیج دونوں اطراف میں علیحدہ علیحدہ تھے۔کارڈ پر نو بجے کا وقت تھا مگر نوبجے تک مہمان نہ آئے تھے‘ میں اس کیفیت کو دیکھ کر شامیانے کے اندر گیا۔ دلہن کے والد صاحب سے ملاقات ہوئی احوال پوچھا مسکرا کر کہنے لگے: برات 11بجے اگر جلدی آجائے تو غنیمت ہے کیونکہ آپ کو پتا ہے کہ کل رات مہندی تھی تو مہمان رات 2 بجے آئے تھے۔ صبح تک پھر ’’شغل‘‘ چلتا رہا۔ جب دن چڑھا تو مہندی کا فنکشن ختم ہوا۔ میں نے پوچھا اس شامیانے میں صرف ون ڈش کا اہتمام ہے یا مزید بھی تکلف کیا ہے۔ادھر تو صرف ون ڈش ہے کیونکہ پبلک کی جگہ ہے۔لیکن کھانا اپنے رشتہ داروں کو گھر میں دینا ہے اور برات والوں کا ان کے گھر، گویا ہمارے تین قسم کے اخراجات ہوتے ہیں۔ میں نے کہا جب حکومت نے صرف ون ڈش کی اجازت دی ہے تو یہ حکم تو بیٹی والوں کیلئے رحمت ہے اور خاص طور پر ان لوگوں کیلئے جو ایسی بھاری دعوت کی توفیق نہیں رکھتے پھر کیوںآپ اتنے اخراجات کررہے ہیں۔ وہ کہنے لگے یہ کرنا پڑتا ہے۔ اب ہم مجبور ہیں، اپنی عزت کو بچانے کے لئے کرتے ہیں۔میں نےا یسے ہی پوچھ لیا کہ گھرمیں مہمانوں کو کیا ڈشیں دی جائیں گی تو ذرا سینہ چوڑا کرکے کہنے لگے: کھانوں میں ہر قسم کے گوشت روسٹ، بریانی ذائقوں سے لبریز اور رنگوں والے حلوے، قلفے اور اعلیٰ لذیذ شکل و صورت کے کباب، سلاد اور کئی اقسام کے نان، پھل، سبز چائے وغیرہ دی جائے ہے۔ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کہا ایسے واہ واہ ہوتی ہے۔چونکہ بارات کافی لیٹ تھی‘ انتظامات ہوچکے تھے اور دلہن کے والد صاحب بالکل فارغ میرے ساتھ کرسی پر بیٹھ گئے۔ میں نے مزید پوچھا: آپ کےہاں شادی پر سوٹ کتنے تیار ہوتے ہیں کہنے لگے: شادی میں رشتہ داروں کے بچوں بچیوں کے لئے کم از کم آٹھ آٹھ جوڑے کپڑوں کے تیار ہوتے ہیں۔ جب کسی دعوت میں شرکت کرنا ہوتی ہے تو لباس میں خاص تبدیلی، چمک، دمک، سرخی رنگ، سٹائل اور جدا جدا فیشن کے کپڑےہوتے ہیں۔ میں نے دریافت کیا آٹھ جوڑے کس طرح؟ انہوں نے کہا مہندی سے قبل دو تین روز رشتہ دار لڑکیوں کو ڈھولکی کے لئے مدعو کیا جاتا ہے۔ ہر رات لباس، جوتے، میک اپ جدا اور منفرد، مہندی والے روز لڑکے کی طرف جانا‘ پھر نیا لباس، لڑکی کے گھر یا کسی شادی گھر میں مہندی، لڑکیاں مخصوص لباس رنگ خاص، لڑکوں کے گلے میں دوپٹے، ڈھولکی کی آواز یا میوزک کی دھنیں پھر برات، ولیمہ اور پوسٹ ولیمہ۔ ان پر اخراجات، رات کو جاگنا انتظامات ۔ صاحب یہ سب کچھ عزت کے لئے کیا جاتا ہے۔الحمدللہ! اب تک بیٹی کی شادی پر لاکھوں لگا چکا ہوں ‘ قرض بھی چڑھ چکا ہے مگر شکر ہے ناک بچ گئی ! ہر طرف واہ واہ ہورہی ہے۔میں یہ سن کر یہ کہہ کر گھر چلا آیا کہ جب بارات آئے گی تو حاضر ہوجاؤں گا۔ خدا حافظ۔ قارئین! اسی طرح میں ایک ولیمہ پر مدعو تھا۔ بڑے پڑھے لکھے، فارن کو الیفائیڈ، عہدے والے لوگ، اسی طرح لڑکی والے سوسائٹی میں اونچا مقام رکھتے ہیں۔ دعوت ولیمہ کا وقت ساڑھے آٹھ بجے رات کا تھا لوگ آہستہ آہستہ آنے لگے۔ دولہن بن ٹھن کر آدھی بازوئوں والی قمیص، لہنگا پہنے آگئیں۔ ان کے والدین رشتہ دار آگئے۔ دعوت ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوئی۔پھر اس کے بعد تمام حاضرین ناظرین کے سامنے بے ہودہ سٹائل سےفوٹوشوٹ اور نجانے کیا کیا بے حیائی کے ہنگامے ہوئے میں نے کانوں کو ہاتھ لگائے اور کھانا کھائے بغیر ہی واپس چلا آیا۔ ایسی شادیوں میں سنت رسول ﷺ کا کھل کر مذاق اڑایا جاتا ہے‘ ایسی شادیوں میں سب کچھ (باقی صفحہ نمبر 53 پر)
(بقیہ:شادی کی رسومات‘ ایمان اور مال کا ضیاع)
ہوتا مگر دین نہیں ہوتا کیا خدا اور اس کے رسول ﷺ سے منہ موڑ کر ہمیں سکون مل سکتا ہے۔ کیا اس طرح ہمارے گھروں میں سکون آسکتا۔ میں اکثر عبقری میں شیخ الوظائف کی تحریر ’’حال دل‘‘ میں ایسی شادیوں کے انجام اور نسلوں کا بُرا حال پڑھتا ہوں اس کے علاوہ شیخ الوظائف درس میں بھی اکثر ایسی شادیوں کے انجام بتاتے ہیں۔ قارئین!میں کوئی عالم یا مفتی نہیں مگر اتنا جانتا ہوںاسلامی نقطہ نظر سے شادی میں رسومات کی گنجائش نہیں سادگی اور خدا سے اچھی امید کی دعا ہے۔ حضرت علی شیر خدا حیدر کرار رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی شادی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضورنبی کریم رحمۃ اللعالمین ﷺ کی دختر نیک اختر سے ہوئی۔ تو ولیمہ دیا گیا۔ حضور نبی کریمﷺ ولیمہ دینا پسند فرماتے تھے۔ اسی طرح حضور نبی کریم ﷺ کا نکاح جب حضرت صفیہؓ رضی اللہ عنہٗ سے ہوا تو آپﷺ نے ولیمہ میں خشک کھجوریں اور زیتون کا تیل مہمانوں کے لئے پیش کیا۔ جو دوستوں نے اکٹھا کیا تھا۔ سب نے ایک دسترخواں پر بیٹھ کر ولیمہ کھایا۔ چشمہ سے پانی پیا قارئین! یہ ولیمہ ہمارے پیارے نبی حضور نبی کریم ﷺ کی مبارک شادی کا تھا۔بارات فوج کی مانند نکاح والے گھر آنا، ان کو کھانے کھلانا اور تواضح و تقریبات اسلام میں ضروری نہیں۔ یہ صرف رسومات ہندوانہ ہیں۔ ہمارا کلچر سادگی ہے‘ فضول خرچی نہیں۔ شادی کو رسومات کو ہندوئوں نے مسلمانوں کے لیے ایسا ضروری قرار دیا کہ مسلمانوں کو اس طرف راغب کیا اور سود دیا۔ مسلمان کی جائیداد رہن رکھوالی اور مسلمان باراتیوں کے لئے شامیانے، انتظامات، دعوتیں، حالانکہ نکاح رسولﷺ کی سنت ہے۔ اس میں چند لوگ ہوتے ہیں۔ نکاح اور دعا ہوجاتی ہے۔ ولیمہ کی دعوت حسب توفیق ہے۔ اس میں رسمیں، شان و شوکت کا اظہار نہیں، صرف رشتہ داروں، دوستوں کو خوشی میں شریک کرنا مقصود ہوتا ہے۔ہمارے مذہب میں تمام آسانیاں ہیں۔ زیادتی کی گنجائش نہیں۔ زیادہ اخراجات، تصرف، دولت، نمود و ضیاع ہے۔ ہم نے اپنی خواہشات کو اللہ کی مرضی اور رسول اللہﷺ کی سنت سے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا۔ لہٰذا ایسے عمل سے ہم اللہ کی خوشنودی سے محروم ہو جائیں گے اور رسول اللہﷺ کی سنت سے انحراف کریں۔

 

 

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 144 reviews.